“ بھٹو صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ” اور تم یہ چاہتے ہو سر شاہ نواز بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو کسی نامعلوم مولوی حق .......

لاہور(خصوصی رپورٹ) سعید مہدی ملک کے نامور بیورو کریٹ ہیں، یہ پوری زندگی سول سروس میں رہے، ملک کے کلیدی عہدوں پر کام کیا،جنرل ضیاءالحق نے 5 جولائی 1977ءکی رات مارشل لاءلگا دیا، فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا اور گورنر ہاؤس مری میں محبوس کر دیا، حکومت ختم ہو گئی، کابینہ ٹوٹ گئی اور اسمبلیاں برخواست ہو گئیں، بھٹو صاحب 23 دن فوج کی حراست میں رہے، فوج نے انہیں 28 جولائی کو رہا کر دیا، بھٹو صاحب نے رہا ہوتے ہی فوجی حکومت کے خلاف احتجاجی مہم شروع کر دی، بھٹو صاحب اسلام آباد آئے تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سعید مہدی کو ٹینشن لگ گئی کیونکہ بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو ہینڈل کرنا آسان نہیں تھا چنانچہ انتظامیہ مشکل میں پھنس گئی.
یہ لوگ بھٹو صاحب پر نظریں جما کر بیٹھ گئے، ڈپٹی کمشنر کو ایک دن اطلاع ملی بھٹو صاحب پیر آف مکھنڈ شریف کی رہائش گاہ سے باہر آ گئے ہیں، انتظامیہ پریشان ہو گئی، ان کا خیال تھا بھٹو اگر راجہ بازار یا لیاقت باغ چلے گئے تو ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں گے، ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو الرٹ کر دیا، وائرلیس پر اطلاع ملی بھٹو صاحب کی گاڑی ائیر پورٹ کی طرف مڑ گئی ہے، سعید مہدی نے اطمینان کا سانس لیا۔ ان کا خیال تھا یہ فلائیٹ لے کر لاہور یا کراچی چلے جائیں گے اور یوں ان کی جان چھوٹ جائے گی لیکن ان کا یہ اطمینان دیرپا ثابت نہ ہوا، پھر وائر لیس پر اطلاع ملی بھٹو صاحب آرمی چیف ہاؤس کی طرف مڑ گئے ہیں، آخر میں اطلاع آئی، بھٹو صاحب آرمی چیف ہاؤس کے گیٹ پر پہنچ گئے ہیں، یہ جنرل ضیاءالحق سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، جنرل ضیاءالحق اس وقت جی ایچ کیو میں تھے، انہیں اطلاع دی گئی، جنرل ضیاءنے بھٹو کو ڈرائنگ روم میں بٹھانے کا حکم دیا اور دفتر سے گھر آ گئے، سعید مہدی کو بھی تھوڑی دیر بعدآرمی چیف ہاؤس طلب کر لیا گیا، یہ بھاگتے ہوئے پہنچے، اندر گئے تو اندر عجیب منظر تھا، بھٹو صاحب سنگل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھے تھے اور جنرل ضیاءالحق چہرے پر مسکینی سجا کر سامنے تشریف فرما تھے، جنرل ضیاءالحق نے سعید مہدی کو دیکھتے ہی بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کیا اور کہا ”مسٹر ڈپٹی کمشنر کیا آپ انہیں جانتے ہیں“مہدی صاحب نے عرض کیا ”جی سر یہ ہمارے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہیں“ یہ سن کر جنرل ضیاءتڑپ کر بولے ”نہیں‘ نہیں سابق نہیں، یہ 90 دن بعد دوبارہ ملک کے وزیراعظم ہوں گے، آپ انہیں تنگ کرنا بند کردیں، یہ آزاد ہیں، یہ جہاں جانا چاہیں، یہ جائیں، یہ جو کرنا چاہیں کریں، آپ انہیں نہیں روکیں گے“مہدی صاحب نے اوکے کہا، سلام کیا اور باہر آ گئے، تھوڑی دیر بعد بھٹو صاحب اور جنرل ضیاءالحق دونوں باہر آگئے، جنرل ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولا،بھٹو صاحب گاڑی میں بیٹھے، جنرل ضیاءنے دروازہ بند کیا، سمارٹ سا سیلوٹ کیا اور بھٹو روانہ ہو گئے، اسکے بعد سعید مہدی کی بھٹو صاحب سے دوسری ملاقات راولپنڈی جیل میں ہوئی،مسعود نبی نور چیف سیکرٹری اور ایف آئی ملک کمشنر تھے، سعید مہدی ان دونوں کے حکم پر بھٹو صاحب کو رحم کی اپیل کےلئے رضا مند کرنے جیل گئے، بھٹو صاحب اپنے سیل میں بیٹھے تھے، ڈی سی نے ان سے عرض کیا ”سر آج رحم کی اپیل کا آخری دن ہے، آپ کل یہ اپیل نہیں کر سکیں گے“ بھٹو صاحب نے مہدی صاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا ”میرا نام کیا ہے“ مہدی صاحب نے جواب دیا ”سر آپ ذوالفقار علی بھٹو ہیں“ بھٹو صاحب نے پوچھا ”اور میرے والد کا کیا نام تھا؟ مہدی صاحب نے جواب دیا ”سر ان کا نام سر شاہ نواز بھٹو تھا“ بھٹو نے کہا” اور قابض جنرل کا کیا نام ہے“ مہدی صاحب نے جواب دیا ”جنرل ضیاءالحق“ بھٹو صاحب بولے ” تم اب اس قابض جنرل کے والد کا نام بتاؤ“ مہدی صاحب نے ادب سے عرض کیا ”سر میں نہیں جانتا“ بھٹو صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ” اور تم یہ چاہتے ہو سر شاہ نواز بھٹو کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو کسی نامعلوم مولوی حق کے قابض بیٹے جنرل ضیاءالحق سے زندگی کی بھیک مانگے“ سعید مہدی خاموش رہے، بھٹو صاحب بولے ” مسٹر ڈپٹی کمشنر میں اس شخص کو اپیل کا مزہ نہیں لینے دوں گا، میں اسے اور خود کو تاریخ پر چھوڑتا ہوں، بھٹو کا فیصلہ تاریخ کرے گی“۔سعید مہدی مایوس ہو کر واپس آ گئے، ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ءکو رات دو بج کر چار منٹ پر راولپنڈی میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جنرل ضیاءالحق اگلی صبح روٹین کے مطابق دفتر کےلئے نکلے، جیل کے قریب پہنچ کر گاڑی رکوائی، فاتحہ پڑھی اور دفتر روانہ ہو گئے، جنرل ضیاءالحق کی فاتحہ سے قبل حکومت کا کوئی کارندہ نہیں جانتا تھا بھٹو صاحب دنیا میں نہیں رہے۔
Credit: hassannisar

Comments